جمعرات، 12 فروری، 2015

وضو کے فرائض ۳ دونوں ہاتھ کھنیوں سمیت دھونا

۳۔ دونوں ہاتھ کھنیوں سمیت دھونا:
دونوں ہاتھ کھنیوں سمیت دھونا فرض ہے۔ ۔  اللہ تعالیٰ کے فرمان کی وجہ سے
"وأيديكم إلى المرافق"
ترجمہ:"اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو۔"
مرافق مرفق کی جمع ہے مرفق کہنی کو کہتے ہیں۔
آیت کریمہ میں " إلى " " مع " کے معنی میں ہے(یعنی   إلى کے معنی "تک" کے آتے ہیں لیکن یہاں پر  إلى مع کے معنی میں ہے،  مع ساتھ کے معنی میں آتا ہے)
اس کی دلیل کے وضو میں کہنیوں کا دھونا بھی شامل ہے مسلم شریف کی حدیث ہے ۔
عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمُجْمِرِ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَتَوَضَّأُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى حَتَّى أَشْرَعَ فِي الْعَضُدِ، ثُمَّ يَدَهُ الْيُسْرَى حَتَّى أَشْرَعَ فِي الْعَضُدِ، ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى حَتَّى أَشْرَعَ فِي السَّاقِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى حَتَّى أَشْرَعَ فِي السَّاقِ "، ثُمَّ قَالَ: " هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ. وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ إِسْباغِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكمْ فَلْيُطِلْ غُرَّتَهُ وَتَحْجِيلَهُ»

ترجمہ:  (نعیم بن عبداللہ مجمر بیان کرتے  ہیں  کہ میں نے )حضرت ابو ہریرہؓ  کو وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے اولاً چہرہ کو کامل طور پر دھویا پھر اپنے دائیں بائیں ہاتھ کو بھی بازو تک دھویا، پھر سر کا مسح کیا اس کے بعد دائیں پیر کو پنڈلی کے ایک حصہ تک دھویا اس کے بعد فرمایا کہ میں نے اسی طرح رسول اللہﷺ کو وضو فرماتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے وضو کامل کرنے کی وجہ سے تمہاری پیشانیاں اور ہاتھ پاؤں قیامت کے دن منور ہوں گے، لہٰذا اپنے چہرہ اور ہاتھ پاؤں کی نورانیت کو جو بڑھا سکے سو بڑھائے۔(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۴۶ بَابُ اسْتحْبَابِ إِطَالَةِ الْغُرَّةِ وَالتَّحْجِيلِ فِي الْوُضُوءِ)
مسئلہ:  واجب ہے بالوں اور چمڑی(جلد)  کا مکمل  دھونا، پس اگر اس کے ناخنوں کے نیچے میل ہو جو پانی کے اندر پہنچنے سے روکتا ہو یا  انگوٹھی ہے جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے روکتی ہے تو وضو صحیح نہیں ہوگا۔
حدیث:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: رَجَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَاءٍ بِالطَّرِيقِ تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَ الْعَصْرِ، فَتَوَضَّئُوا وَهُمْ عِجَالٌ فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِمْ وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ لَمْ يَمَسَّهَا الْمَاءُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ»
(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۴۱، كِتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ وُجُوبِ غَسْلِ الرِّجْلَيْنِ بِكَمَالِهِمَا)
ترجمہ:
"عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ واپس ہوئے۔ راستہ میں ایک جگہ پانی پر پہنچے تو عصر کی نماز کے لئے لوگوں نے جلدی کی اور جلدی جلدی وضو کیا جب ہم ان کے پاس پہنچے تو ان کی ایڑیاں (خشکی سے) چمک رہی تھیں ان پر پانی نہیں لگا تھا تو اس پر رسولﷺ نے فرمایا ہلاکت ہے(خشک رہ جانے والی ایڑیوں کے لئے)  آگ سے، وضو کامل طور پر کرو۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۴۱، كِتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ وُجُوبِ غَسْلِ الرِّجْلَيْنِ بِكَمَالِهِمَا)
اور مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے
عَنْ جَابِرٍ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، أَنَّ رَجُلًا تَوَضَّأَ فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلَى قَدَمِهِ فَأَبْصَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ» فَرَجَعَ، ثُمَّ صَلَّى۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۴۳،  كِتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ وُجُوبِ اسْتِيعَابِ جَمِيعِ أَجْزَاءِ مَحَلِّ الطَّهَارَةِ)

ترجمہ:"جابرؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بینا کیا کہ ایک شخص نے وضو کیا اور اپنے پیر میں ناخن بھر جگہ خشک چھوڑ دی۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھ لیا تو فرمایا جاؤ اور اچھی طرح وضو کر کے آؤ، وہ لوٹ آگئے اور پھر آکر نماز پڑھی۔"
(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۴۳،  كِتَابِ الطَّهَارَةِ، بَابُ وُجُوبِ اسْتِيعَابِ جَمِيعِ أَجْزَاءِ مَحَلِّ الطَّهَارَةِ)
ان دونوں حدیثوں سے ثابت کے وضو کافی  نہیں ہوتا  جب تھوڑی جکہ بھی سوکھی رہ جائے دھوئے جانے والے اعضاء میں۔
مسئلہ: کہنی کے اوپر سے ہاتھ کٹا ہو ا ہو تو دھونا فرض نہیں ہے، لیکن باقی بازو کا دھونا مستحب ہے، تاکہ وہ عضو طہارت سے خالی نہ رہے۔

مسئلہ: اگر کہنیوں سے نیچے کٹا ہو تو بقیہ حصہ کا دھونا واجب ہے۔
مسئلہ: اگر کہنیوں کے جوڑ سے کٹا ہو تو بقیہ ہڈی کے کنارے کا
 دھونا واجب ہے
مسئلہ:  ناخن کافی لمبے ہوکر انگلیوں کے سروں سے آگے نکل جائیں تو ان کا دھونا واجب ہے۔
مسئلہ: بازو یا پیر پر گھنے بال ہوں تب بھی اس کے ظاہر و باطن اور کھال کا دھونا واجب ہے۔
مسئلہ: وضو کے بعد ہاتھ یا پیر کٹے یا سر مونڈے تو کھلے ہوئے حصے کو دوبارہ دھونا لازم نہیں ہے، دوبارہ وضو کرتے وقت ان حصوں کا دھونا ضروری ہے۔
مسئلہ: اگر کسی کے ہاتھ میں سوراخ یا چھید ہو تو اس کے اندر بھی دھونا ضروری ہے،
 اس لئے کہ وہ بھی ظاہر ہو چکا۔
مسئلہ: ہاتھ کٹا یا مریض خود وضو کرنے پار قادر نہ ہو، تو کسی ایسے شخص کا سہارا حاصل کرنا ضروری ہے ، جو اسے وضو کرائے جب کہ ایسا سہارا مفت مل رہا ہو یا مناسب اجرت(مزدوری) پر اور مذکورہ شخص اجرت بھی دے  سکتا ہو۔
مسئلہ: اگر وضو کرانے والا کوئی سہارا ہی نہیں، یا وہ اجرت مانگ رہا ہو اور یہ دے نہیں سکتا یا دے تو سکتا ہے لیکن وہ زیادہ اجرت مانگ رہا ہے تو تیمّم کرکے نماز پڑھ لے۔ لیکن چونکہ اس طرح کا عذر نادر ہے(کبھی کبھار ہی پیش آتا ہے) اس لئے بعد میں اس کا اعادہ(لوٹانا) ضروری ہے۔
مسئلہ: اگر تیمم بھی نہیں کرسکتا تو اسی حال پر نماز پڑھ لے اور آئیندہ اس نماز کو دوھرائے۔
(تحفۃ الباری فی فقہ الشافعی ۱/۸۲)
(الفقه المنهجي على مذهب الإمام الشافعي رحمه الله تعالى)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں